تحریر و ترتیب: ایمن زہرا شگری
حوزہ نیوز ایجنسی । شہیدہ سیدہ آمنہ بنت الہدیؒ تاریخ اسلام کی ایک عظیم شخصیت ہیں کہ جنہوں نے اپنے جلیل القدر بھائی آیت اللہ العظمیٰ شہید محمد باقر الصدرؒ کے شانہ بشانہ تبلیغی، ثقافتی، جہادی اور سیاسی امور میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ کسی انسان کو اگر ہم نے نہیں دیکھا، یا ہم اسے براہ راست پہچاننے سے قاصر ہیں تو اس کو پہچاننے کا ایک راستہ یہ ہے کہ ہم اس کے ہمفکر افراد، خاندان اور ان کے دوست احباب کے ذریعے انہیں پہچاننے کی کوشش کرتے ہیں، جنہیں اس کے بارے میں گہری آشنائی ہوتی ہے، اسی طریقۂ کار کو مدنظر رکھتے ہوئے ہم نے اس مختصر مضمون میں فقہاء، علماء، اہل خاندان اور دوست احباب کی زبانی شہیدہ بنت الہدیٰؒ کی شخصیت سے آشنائی کی کوشش کی ہے۔
شہیدہ بنت الہدی حضرت امام خمینیؒ کی نظر میں:
حضرت امام خمینیؒ نے شہید باقر الصدرؒاور شہیدہ بنت الہدیٰ کی شہادت کی مناسبت سے اپنے پیغام میں فرمایا:آیت اللہ سید محمد باقر الصدرؒ اور آپ کی ہمشیره مکرّمہ و مظلومہ بنت الہدی ؒوہ بزرگ شخصیات ہیں، جنہوں نے اسلامی اہداف کی راہ میں مجاہدانہ زندگی گزاری ہے۔وہ علم و اخلاق کے معلم اور علم وادب کی قابل فخر شخصیات میں سے تھے۔ البتہ انتہائی بہیمانہ انداز سے شہادت کے عظیم و ارفع درجہ پر فائز ہوئیں۔
رہبر انقلاب حضرت آیت اللہ خامنہ ای مد ظلہ:
ہمارے اسی زمانے میں ہی دیکھیں کہ (اسلامی انقلاب کی کاميابی سے قبل) ايک جوان، شجاع، عالمہ، مفکر اور ہنرمند خاتون ’’بنت الہدیٰؒ‘‘ (آيت اللہ سيد محمد باقر شہيد ؒکی خواہر) نے پوری تاريخ کو ہلا کر رکھ ديا، وہ مظلوم عراق ميں اپنا بھرپور کردار ادا کرنے ميں کامياب ہوئيں اور درجہ شہادت کو حاصل کيا۔
بنت الہدیٰ جيسی خاتون کی عظمت و شجاعت، عظيم مردوں میں سے کسی ايک سے بھی کم نہيں ہے۔ اُن کی فعاليت ايک زنانہ فعاليت تھی اور ان کے برادر کی جد و جہد و فعاليت ايک مردانہ کوشش تھی ليکن دونوں کی جد و جہد و فعاليت دراصل کمال کے حصول اور ان دونوں انسانوں کی ذات اور شخصيت کے جوہر و عظمت کی عکاسی کرتی تھی۔ہمیں ایسی خواتين کی تربيت و پرورش کرنی چاہئے۔(30/7/76)
آیت اللہ سید محمود ہاشمی شاہرودی:
شہیدہ بنت الہدیٰؒ نے اپنے بھائی سید محمد باقرالصدرؒ کے زیرسایہ تربیت پائی۔درحقیقت بنت الہدیٰ کی تربیت میں ان کابنیادی کردار ہے۔بلاشبہ بنت الہدی کو ایک بے مثال خاتون کہا جا سکتا ہے۔ عصرحاضر کی اسلامی تاریخ بالخصوص عراق وایران میں خواتین سے مربوط مسائل بالخصوص تربیتی مسائل وثقافتی اداروں کی تشکیل میں ان کا کردار بہت اہم ہے۔عراق میں آج کی اکثر مومنہ، متدین وعالمہ خواتین، شہیدہ بنت الہدی ہی کی تربیت یافتہ ہیں۔
حضرت آیت اللہ رضا استادی:
آپ ادبی اور حوزوی علوم جیسے (فقہ میں ) بہت عظیم مرتبہ پر فائز ہوئیں کہ بہت سی خواتین اپنے فقہی مسائل کے لئے آپ سے رجوع کرتی تھیں۔
آیت اللہ سید مرتضی عسکری:
سیدہ بنت الہدیؒ انتہائی شجاع اور بہادرخاتوں تھیں۔ادبی اعتبار سے بھی باذوق طبیعت کی حامل تھیں۔ وہ انتہائی قادر الکلام اور متاثر کن تھیں۔بہت سے ادیبوں اور ادب سے شغف رکھنے والے افراد کو انہوں نے اپنا گرویدہ بنا لیا تھا۔
شیخ محمد رضا نعمانی:
پیغمبر کی پاک نسل سے تعلق رکھنے والی عظیم شہیدہ، جناب آمنہ بنت الہدی کے بارے میں گفتگو آسان نہیں، کیونکہ آپ ایسی خصوصیات اور اوصاف کی حامل ہیں،جو اپنے زمانے سے بہت آگے ہیں۔ہماری شناخت کے معیار کے مطابق آپ ایک استثنائی شخصیت ہیں۔یہ صرف ان کے ظاہری احترام وعقیدت میں نہیں کہتا، بلکہ میری یہ بات ان کے حقیقی احترام اور گہری شناخت کی بنیاد پر ہے۔ میری شناخت کے مطابق وہ اسلامی فکر اور شعور و آگہی میں یکتا اور گہرے ادر اک کے لحاظ سے یگانہ روزگارتھیں۔ وہ مرجع وقت کے تمام پہلوؤں سے واقف، بعثی حکمرانوں سے مقابلہ کرنے کے طریقہ کار سے آگاہ اور جہاد کے میدان میں سب سے آگےآگے تھیں۔
سید حسین صدر:
اگر عراق کا اسلامی انقلاب شہیدصدر کی فکر سے متعلق ہے، تو عراق میں خواتین کا انقلاب، ان کی بہن بنت الہدیؒ کے کردار سے مربوط ہے؛ کیونکہ آپ عراقی خواتین کی تحریک میں بنیادی کردار کی حیثت رکھتی ہیں۔ عالمہ، مجاہدہ شہیدہ بنت الہدیؒ، اسلامی افکار کی علمبردار، نسلوں کی معلم اوربیداری کی موجد تھیں۔
شہید بنت الہدیؒ کی والدہ گرامی:
میں نے اپنی اولاد کو خدا کی راہ میں نذر کیا ہے اور ان کے لیے یہی دعا کی ہے اللہ تعالیٰ ان کو اطاعت الٰہی اور دین حق کی خدمت میں زندگی گزارنے کی توفیق دے۔ (شاید یہی وجہ ہو کہ) میں نے آمنہ کو اپنی ہم عمر بچیوں کے ساتھ ہمیشہ کھیلتے نہیں دیکھا، بلکہ وہ ہمیشہ بزرگوں اور بڑوں کی صحبت میں رہتی تھی۔
شہید صدرؒ کی ہمسر ام جعفر:
ان کا لب ولہجہ انتہائی شیرین اور پرکشش تھا۔ خود نیک دل اور منکسر المزاج تھیں۔ ہم نے سالہاسال ایک ہی گھر میں زندگی گزاری، لیکن عدالت کے خلاف کوئی عمل ان سے سرزد ہوتے نہیں دیکھا۔ بچپن میں ہی ان کی رفتار اپنے ہم عمر بچیوں جیسی نہیں تھی۔ اپنی ماں کی دیکھ بھال ان کا شیوہ تھا۔ اپنے بھائی کے ساتھ برادرانہ رشتے کے ساتھ دوستی اور استاد و شاگرد کاتعلق تھا۔ اسی لئے شہیدہ کے ذہن میں دینی، سیاسی اور سماجی موضوعات اور مسائل کے متعلق کوئی بھی چھوٹا بڑا مسئلہ آتا تو فورا اپنے بھائی کے سامنے پیش کرتی تھیں۔
شہیدہ کی سہیلی ام احمد شاہرودی:
سیدہ بنت الہدی کی پوری زندگی، دین، درس اور اخلاق سے عبارت تھی۔ وہ ہمیشہ اخلاص کے ساتھ اور کسی قسم کی توقع کے بغیر فقرا کی مددکرتی تھیں، خواہ وہ مادی لحاظ سے ہو یا روحی لحاظ سے وہ ہمیشہ دوسروں کی خدمت کے جذبے سے سرشار رہتی تھیں۔اپنی شاگردوں (طالبات) کے اہل خانہ کی عیادت کو جاتیں، ان کی ضروریات کے بارے میں پوچھتیں اور ان کی دلجوئی کرتی تھیں۔ اسی طرح نجف میں رہائش پذیرمسافر طلبہ کے گھر جاکر ان کی ان دلجوئی کے ساتھ احتیاجات کو پورا کرتی تھیں۔ اپنے اموال سے، یا بھائی اور کسی دوسرے سے قرض لے کر دوسروں کی مدد کرتیں، وہ بھی دوسروں سے مخفیانہ اور چھپاکر۔ ہم اس مجاہدہ خاتون کی زندگی کے چند پہلووں سے آشناہوئے۔ ہمیں بھی ان کی شخصیت کو تحریف سے بچانے اور اسلام ناب محمدی کو زندہ رکھنے کے لئے اس طرح کی شخصیات کو اپنے لئے نمونہ عمل بنانا چاہیے اور اپنی علمی، ثقافتی سرگرمیوں کے ذریعے معاشرے کو ایک بہترین معاشرے میں بدلنا چاہیے۔ اس کام کے لیے ہمیشہ صرف خدا کی خوشنودی کو مدنظر رکھنا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کا حامی و ناصر ہو! آمین
نوٹ: حوزہ نیوز پر شائع ہونے والی تمام نگارشات قلم کاروں کی ذاتی آراء پر مبنی ہیں حوزہ نیوز اور اس کی پالیسی کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔